گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کے ماہرین اطفال نے ماں کے دودھ کو قدرتی اور صحت بخش غذائیت کا سب سے اہم ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ نوزائیدہ بچوں کی جانیں محفوظ کی جا سکیں۔ لیکن جب حال ہی میں حکومت نے فارمولا دودھ پر ٹیکسز کم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، تو بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ماہرین نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور اسے اس طویل جدوجہد میں پیچھے کی طرف ایک قدم سمجھا۔
یہ بات ایک حکومتی اہلکار نے کھانے اور مشروبات کی بین الاقوامی کمپنی کے وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس سے معلوم ہوا کہ حکومت فارمولا دودھ کی جانب مائل ہے۔ لیکن یہ سمجھنا مشکل ہے کہ حکومت فارمولا دودھ کو سستا اور آسانی سے دستیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ ماں کا دودھ مفت، صحت مند اور قدرتی متبادل ہے۔
سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونٹولوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ جیسے تمباکو پر ٹیکسز لگائے جاتے ہیں، اسی طرح فارمولا دودھ پر بھی صحت عامہ کے لیے زیادہ ٹیکس لگانے چاہئیں۔ فارمولا دودھ کے زیادہ استعمال اور بچوں کو مناسب طریقے سے دودھ نہ پلانے کے باعث ملک بھر کے ہسپتالوں کے ایمرجنسی رومز میں بچوں کی حالت غیر معمولی طور پر خراب نظر آتی ہے۔
چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی میں لائے گئے ہر تیسرے بچے کو اسہال ہوتا ہے۔ ان کی تنظیم سالانہ تقریباً 20 لاکھ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور ان کا ٹیلی میڈیسن سسٹم ملک بھر کے 300 سے زائد ہسپتالوں سے منسلک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیٹ کی بیماری (گیسٹرو اینٹرائٹس) سب سے زیادہ عام ہے جس کی بڑی وجہ فارمولا دودھ ہے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5 سال سے کم عمر تقریباً 53 ہزار بچے ڈائریا کی وجہ سے اپنی جان کھو دیتے ہیں، جس سے بچاؤ کے لیے نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانا بہت ضروری ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ غیر صحت مند ماحول میں فارمولا دودھ پلانے والے بچوں میں نمونیا سے موت کے امکانات 10 گنا زیادہ ہوتے ہیں، جو پاکستان میں بچوں کی اموات کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔
بوتل سے دودھ پلانے والے بچوں میں غذائی کمی بھی عام ہے، جس کی وجہ سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے، مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور بعض اوقات موت تک واقع ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ڈی ایس اکرم کے مطابق زیادہ تر غذائی قلت کا شکار بچے وہ ہیں جو بوتل سے دودھ پیتے ہیں۔
سیو دی چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بچوں میں غذائی قلت کے حوالے سے دنیا کا دوسرا سب سے خراب ملک ہے جہاں 20 فیصد سے زائد بچے پیدائش کے وقت ہی غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔ جنگ، نقل مکانی، شدید گرمی اور مہنگائی غذائی قلت کی بڑی وجوہات ہیں اور پاکستان ان تمام مسائل سے دوچار ہے۔
ماں کا دودھ غذائیت اور حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے، مگر فارمولا کمپنیز اپنی مصنوعات کی تشہیر جارحانہ انداز میں کرتی ہیں جبکہ ماؤں کو دودھ پلانے میں مدد فراہم نہیں کی جاتی۔
نتیجتاً، مالی مشکلات کے شکار خاندان مہنگے فارمولا دودھ پر مجبور ہو جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور قدرتی غذائی متبادل سے محروم ہو جاتے ہیں۔
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن سندھ کے صدر ڈاکٹر وسیم جمالوی کہتے ہیں کہ فارمولا دودھ شروع کرنے کے بعد اکثر ماؤں کا دودھ کم ہو جاتا ہے یا بند ہو جاتا ہے۔ کراچی کے سول اسپتال کے شعبہ اطفال کے سربراہ کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ والدین اکثر دیر سے فارمولا دودھ کی قیمت جان کر اسے کم کر دیتے ہیں، جس سے بچوں کی غذائیت متاثر ہوتی ہے۔
صاف پانی اور صفائی کی کمی بھی بچوں میں بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر ڈی ایس اکرم کہتی ہیں کہ یہ مسائل بچوں کو مختلف انفیکشنز میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں صرف 48 فیصد بچوں کو ماں کا دودھ دیا جاتا ہے، جبکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارش ہے کہ پہلے 6 ماہ بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلایا جائے۔ بہت سی مائیں اور خاندان سمجھتے ہیں کہ غذائی قلت کی وجہ سے ماؤں کا دودھ کافی نہیں ہوتا، اور فارمولا کمپنیز اس خوف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں تاکہ فارمولا دودھ ضروری لگے۔
2002 میں متعارف کرایا گیا پروٹیکشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن آرڈیننس اور اس کے بعد صوبوں کے قوانین فارمولا دودھ کی مارکیٹنگ پر پابندی عائد کرتے ہیں، مگر اس پر عمل درآمد کمزور ہے۔
مارکیٹنگ پابندی کے باوجود فارمولا دودھ کی کمپنیاں قواعد کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور صحت کے عملے کو مراعات دیتی ہیں۔ ایک سینئر ہیلتھ پریکٹیشنر کے مطابق کچھ کمپنیوں نے ڈاکٹرز کو بیرون ملک دورے پر بھیجا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے بچوں کے دودھ سے متعلقہ اداروں کو زیادہ وسائل اور سیاسی حمایت کی ضرورت ہے تاکہ قوانین کا سختی سے نفاذ ہو سکے۔
2023 میں سندھ نے فارمولا دودھ کی فروخت کے حوالے سے قوانین سخت کیے ہیں، جن کے تحت فارمولا دودھ صرف ڈاکٹر کے نسخے پر دستیاب ہوگا اور اس پر غذائی قلت کے خطرات کی وارننگ ہوگی۔ خلاف ورزی پر سخت سزا کا بھی انتظام ہے۔
ماہرین اطفال کہتے ہیں کہ فارمولا دودھ خود مسئلہ نہیں بلکہ اس کا غلط استعمال بچوں کے لیے خطرناک ہے۔ فارمولا صرف ان مخصوص صورتوں میں دیا جانا چاہیے جہاں ماں دودھ نہیں دے سکتی، جیسے ماں کا انتقال، دوہری ماسٹیکٹومی یا ایسی ادویات کا استعمال جو دودھ پلانے کے لیے نقصان دہ ہوں۔
پاکستان میں فارمولا دودھ کی فروخت پر معیاری اور قیمتوں کا کوئی کنٹرول نہیں، اور اگر اسے صرف نسخے پر اور منظم طریقے سے فروخت کیا جائے تو بہتری آسکتی ہے۔
آخر میں ماہرین بار بار کہتے ہیں کہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں، یہ سب سے محفوظ اور قدرتی ذریعہ غذائیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماؤں کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے اور انہیں عوامی اور کام کی جگہوں پر محفوظ اور آرام دہ ماحول دیا جائے تاکہ دودھ پلانا آسان ہو۔
اب وقت ہے کہ بچوں کو دودھ پلانے میں ماؤں کی مکمل معاونت کی جائے اور اس عمل کو معاشرتی معمول بنایا جائے۔